امریکی صدر براک اوباما نے جمعہ کو ٹیلی فون پر ترک صدر رجب طیب اردوان سے گفتگو کی، اور اس ہفتے کے اوائل میں انقرہ میں ہونے والے دہشت گرد بم حملے میں 28 افراد کی ہلاکت پر تعزیت کی۔
وائٹ ہاؤس کا کہنا ہے کہ ’’دونوں رہنماؤں نے شام میں سکیورٹی صورت حال اور امریکہ اور ترکی کے مابین تعاون بڑھانے کی ضرورت پر گفت و شنید کی‘‘۔
ترجمان نے بتایا کہ ’’ٹیلی فون کال کے دوران کی گئی مزید گفتگو کے بارے میں تفصیل آج ہی کے دِن جاری کی جائے گی‘‘۔
اس سے قبل اردوان نے کہا تھا کہ وہ امریکہ کی جانب سے فراہم کردہ ہتھیاروں کے معاملے کو اٹھائیں گے، جنھیں شامی کرد ملیشیا
(وائی پی جی) شہریوں کے خلاف استعمال کر رہی ہے، جس پر خودکش بم حملوں کا الزام لگایا جاتا ہے۔
امریکہ کا کہنا ہے وہ ’وائی پی جی‘ کو دہشت گرد گروپ نہیں سمجھتا اور یہ کہ داعش کے شدت پسندوں کے خلاف لڑائی میں وہ اِسے ایک کارآمد اتحادی خیال کرتا ہے۔
امریکی محکمہٴ خارجہ کے ترجمان، مارک ٹونر نے جمعہ کے روز کہا کہ امریکہ نے ’وائی پی جی‘ کو کسی قسم کے ہتھیار فراہم نہیں کیے۔ اور مزید یہ کہ ’’ہمیں اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ملا جس سے اس دعوے کو تقویت پہنچتی ہو کہ ’وائی پی جی‘ کسی طرح سے امریکی اسلحہ ’پی کے کے‘ کو اسمگل کر رہا ہے۔‘‘
ترکی دونوں۔۔ ’وائی پی جی‘ اور ’پی کے کے‘ کو دہشت گرد تنظیمیں قرار دیتا ہے۔